باسمہ تعالٰی
نوحہ
تازیانوں کی ہے بوچھار خدا خیر کرے
مر نہ جائے کہیں بیمار خدا خیر کرے
ایک بیمار جو قیدی ہے برہنہ پا بھی
اور اُس پر رہِ پر خار خدا خیر کرے
پھٹ نہ جائے کہیں غیرت سے زمیں کا سینہ
آ گیا شام کا بازار خدا خیر کرے
ہائے قیدی ہیں حرم، سر پہ ردائیں بھی نہیں
اور ہے مجمعء اغیار خدا خیر کرے
سر کھلے زینب و کلثوم ہیں بازاروں میں
یہ قیامت کے ہیں آثار خدا خیر کرے
نوکِ نیزہ سے بھی، غیرت کا بھرم رکھنے کو
گر گیا فرقِ علمدار خدا خیر کرے
گر گئی پشتِ شتر سے کہیں بنتِ شبیر
تھم گئی وقت کی رفتار خدا خیر کرے
دم بھی لینے نہیں پاتی ہے سکینہ بیبی
اک نیا ظلم ہے ہر بار خدا خیر کرے
کٹ گئے ہاتھ چھدی مشک لبِ نہرِ فرات
گر گیا شہ کا علمدار خدا خیر کرے
سن کے بیٹے کی صدا جانبِ مقتل ہیں چلے
گرتے پڑتے شہ ابرار خدا خیر کرے
زینِ آغوشِ امامت پہ سوار ہوکے صغیر
چل پڑا بر سرِ پیکار خدا خیر کرے
ہر طرف تیز ہے بیداد کی آندھی *عارف*
مشکلوں میں ہیں عزادار خدا خیر کرے
عسکری *عارف*