باسمہ تعالٰی قسمت کی کتابوں کی تحریر بدلتی ہے شبیر کی چوکھٹ پہ تقدیر بدلتی ہے غش آتا ہے شاہوں کو، دربار لرزتے ہیں جب لہجہء حیدر میں تقریر بدلتی ہے ہے کربلا سرور کی اور شام ہے...
حالِ بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا جیسے پیاسہ کوئی اک عمر سرابوں میں رہا مری خوشبو سے معتر تھا گلستانِ وفا خار مانند مرا یار گلابوں میں رہا گفتگو تک رہی محدود ملاق...
میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی تو کیا اب تم سے کوئی بات نہیں ہو سکتی دل میں روشن ہیں مری جاں تری یادوں کے چراغ شہرِ الفت میں کبھی رات نہیں ہو سکتی باطنً قلب و جگر میں ہی بسا ل...