باسمہ تعالٰی
قسمت کی کتابوں کی تحریر بدلتی ہے
شبیر کی چوکھٹ پہ تقدیر بدلتی ہے
غش آتا ہے شاہوں کو، دربار لرزتے ہیں
جب لہجہء حیدر میں تقریر بدلتی ہے
ہے کربلا سرور کی اور شام ہے زینب کا
اِسطرح قیادت کی جاگیر بدلتی ہے
کردارِ شہ دیں کا دشمن پہ اثر دیکھو
اک رات میں ہی خوں کی تاثیر بدلتی ہے
لے آئے ہیں اصغر کو مقتل میں شہ والا
اب جنگ کی کربل میں تدبیر بدلتی ہے
ایمان کا مرکز ہے سرور کی عزاداری
یہ زیست کی بنیاد و تعمیر بدلتی ہے
یہ سوچ کے اکثر ہی ہم فرش پہ سوتے ہیں
یاں خواب بدلتے ہیں؟ تعبیر بدلتی ہے
دربارِ ستمگر میں شمشیر سے خطبوں کی
اندازِ وغا شہ کی ہمشیر بدلتی ہے
غیرت کی ردا اوڑھے بلوے میں نبی زادی
قرآنِ تحمّل کی تفسیر بدلتی ہے
چوراہے کبھی کوچے بازار کبھی گلیاں
یوں آلِ محمد کی تشہیر بدلتی ہے
بیمار کو اک پل بھی تسکین نہیں حاصل
ہر ایک قدم اُس پر تعزیر بدلتی ہے
ہر شب تنِ عابد کے زخموں کی عزیت سے
*سو کروٹیں زنداں میں زنجیر بدلتی ہے*
جلتی ہوئی ریتی پر ہے خون میں آلودہ
مقتل میں محمد کی تصویر بدلتی ہے
ننھی سی لحد بن میں شبیر بناتے ہیں
اور اشکِ لہو چشمِ شمشیر بدلتی ہے
ہر ایک قدم پر ہے اک ظلم نیا *عارف*
ہر گام اسیری کی تصویر بدلتی ہے
عسکری *عارف* اکبر پوری