میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی
تو کیا اب تم سے کوئی بات نہیں ہو سکتی
دل میں روشن ہیں مری جاں تری یادوں کے چراغ
شہرِ الفت میں کبھی رات نہیں ہو سکتی
باطنً قلب و جگر میں ہی بسا لے مجھکو
ظاہرً گر تو مرے ساتھ نہیں ہو سکتی
اسکا شیوہ ہے محبت میں بغاوت کرنا
معتبر اسکی کبھی ذات نہیں ہو سکتی
عشق کا کھیل بھی یہ سوچ کے میں ہار گیا
سچے عاشق کی کبھی مات نہیں ہو سکتی
No comments:
Post a Comment