خامشی ہونٹوں پہ آنکھوں میں سمندر رکھنا
کتنا دشوار ہے جزبات دباکر رکھنا
منہ کے بل گرتے ہیں وہ لوگ یقیناً اک دن
جو نہیں جانتے پیروں کو زمیں پر رکھنا
لاکھ ہو جائے مخالف یہ زمانہ تیرا
اپنے اللہ سے اک آس لگاکر رکھنا
ہم تو دشمن سے بھی ملتے ہیں عزیزوں کی طرح
ہمکو آتا ہی نہیں پہلو میں خنجر رکھنا
عدل و انصاف کا اک یہ بھی تقاضا ہے سنو
مفلسوں اور امیروں کو برابر رکھنا
معتبر کوئی نہیں اب کے جہاں میں عارف
اپنے ہر راز کو سینے میں چھپاکر رکھنا