زمانہ کر ہی رہا تھا رہِ نجات کی بات
سو میں نے چھیڑ دی مولائے کائنات کی بات
زمانہ مجھسے کرے ہے خدا صفات کی بات
خدا کی بات کروں یا علی کی ذات کی بات
بغیرِ حبِ علی باحیات کوئی نہیں
علی کو چھوڑ کے ممکن نہیں حیات کی بات
علی سے بغض، خدا سے امید، ہوش میں آ
صفید دن میں بھی کرتا ہے کالی رات کی بات
یہ کربلا ہے یہاں پر ہو التفات کی بات
کرو نہ مجلسِ سرور میں ذات پات کی بات
دلوں میں عشقِ محمد کا دم وہ بھرتے ہیں
کریں بروزِ ولادت مگر وفات کی بات
چلے ہیں برسرِ نیزہ بکھیرتے خوشبو
نہیں پسند بہتّر گلوں کو مات کی بات
سید محمد عسکری "عارف"
No comments:
Post a Comment