غزل
امتحانِ صبر کی تاثیر باقی رہ گئی
طوق و لنگر کھل گئے، زنجیر باقی رہ گئی
اکِ نمازِ عشق بھی ہم سے ادا نہ ہو سکی
دل میں نیّت ہو گئی، تکبیر باقی رہ گئی
آہ وہ سیلابِ غم سب کچھ بہاکر لے گیا
ذہن میں اک دائمی تصویر باقی رہ گئی
تیری محفل میں مری رسوائیا کیا کم تھیں جو
شہر بھر میں اب مری تشہیر باقی رہ گئی
زندگانی خواہشوں، خوابوں کا اک کچہ گھڑا
پھوٹا وقتِ مرگ، اور تعبیر باقی رہ گئی
مر گیا بیمار پھر بھی مطمئن کیوں ہے طبیب؟
اب نہ جانے کون سی تدبیر باقی رہ گئی
جنگ ہتھیاروں کے دم پہ جیتنی تو سیکھ لی
کارزارِ نفس کی تسخیر باقی رہ گئی
ٹوٹا گھر تو بن گیا کچھ روز میں *عارف* مگر
خانہء دل کی تِرے تعمیر باقی رہ گئی
Comments
Post a Comment