ایک پرانا کلام ارباب ذوق کی نذر
دولت کی ہوس ہے نہ مجھے ذر کی طلب ہے
ناچیز کو شبیر ترے در کی طلب ہے
جاتے ہیں وطن چھوڑ کے اِس واسطے سرور
اسلام کو سرور کے کٹے سر کی طلب ہے
سوکھا ہے کئی دن سے گلوئے شہ والا
شبیر کے حلقوم کو خنجر کی طلب ہے
میدان میں گونجی یہ جو ھلمن کے صدا ہے
دراصل شہ دین کو اصغر کی طلب ہے
غالب ہیں لعینوں پہ یوں انصار بہتّر
نو لاکھ کے لشکر کو بھی لشکر کی طلب ہے
اسکو مرے مولا کے کمالات پتہ ہیں
شبیر سے فطرس کو نئے پر کی طلب ہے
یا رب تو عطا کر مجھے عرفان کے موتی
*عارف* کو بھی حر جیسے مقدر کی طلب ہے
No comments:
Post a Comment