خدایا کیسے ادا ہو حقِ ثنائے حسین
جہانِ لفظ ہی محدود ہے برائے حسین
عطا ہو مجھکو بھی دیدارِ مسکنِ شبیر
گروں میں روضہء سرور پہ کہکے ہائے حسین
بنا دے مجھکو بھی دہلیزِ شاہِ دیں کا فقیر
نصیب سے ہو میسّر مجھے گدائے حسین
کیا ہو نوکِ سناں پر بھی جسنے ذکرِ خدا
ملا نہ کوئی بھی تاریخ میں سوائے حسین
جہانِ حق کی سناشائی مل گئی اس دم
لگائی چہرے پہ حر نے جو خاکِ پائے حسین
حسب نصب کی وہ دیوار توڑ دیتا ہے
بس ایک بار گلے سے جسے لگائے حسین
رواں ہو جسکی رگوں میں یزیدیت کا لہو
پھر اسکے ذہن میں کیونکر بھلا سماے حسین؟
ہر ایک سانس ہے اِسکی براے شکرِ خدا
رضاے حق سے جدا ہے کہاں رضاے حسین؟
نبی کے دین کو ہرگز نہیں زوال کبھی
فصیلِ دیں ہے خدا کی قسم عزاے حسین
تڑپ کے گر گیا جھولے سے بے زباں اصغر
سنی صغیر کے کانو نے جب صداے حسین
زباں پہ کلمہء توحید وقتِ آخر بھی
سناں کی نوک پہ قران بھی سناے حسین
اٹھا کے لاشوں پہ لاشے بروزِ عاشورہ
اکیلا دشت میں ہے خون میں نہاے حسین
گلے پہ خنجرِ بےداد لب پہ شکرِ جلی
جبیں کو عشق الٰہی میں یوں جھکاے حسین
بھتیجے بھانجے بھائی پسر بھی قتل ہوئے
مدد کے واسطے عارف کسے بلاے حسین؟
No comments:
Post a Comment