بگڑی ہوئی تقدیر بنانے میں لگے ہیں
سوئے ہوئے خوابوں کو جگانے میں لگے ہیں
ماضی کے گلے شکوے بھلانے میں لگے ہیں
جو روٹھ گئے انکو منانے میں لگے ہیں
جن لوگوں نے بنیاد رکھی تھی مرے گھر کی
وہ آج مرے گھر کو گرانے میں لگے ہیں
نفرت کی سیاست نے انہیں کر دیا حیوان
انسان ہی انساں کو جلانے میں لگے ہیں
جو دیکھ کے جلتے تھے اجالوں کو وہی لوگ
بستی میں چراغوں کو جلانے میں لگے ہیں
اک ہم ہیں کہ سہ لیتے ہیں ہر رنج خوشی سے
اک وہ ہیں کہ ہر وقت ستانے میں لگے ہیں
کچھ فکر ہے محشر کی نہ اعمال کا غم ہے
کچھ لوگ فقط نام کمانے میں لگے ہیں
ہر روز الجھتی ہی چلی جاتی ہے پھر بھی
ہم زیست کو آسان بنانے میں لگے ہیں
کردار بھی مر جاتے ہیں اس دور میں *عارف*
ہم اپنے اصولوں کو بچانے میں لگے ہیں
سید محمد عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment