سوچتے کیا ہیں ستمگار کہ اب کیا ہوگا
برسرِ نوکِ سناں ذکر خدا کا ہوگا
ضامنِ ذکرِ غمِ سیدِ والا ہے خدا
ذکرِ شبیر زمانے میں ہمیشہ ہوگا
بغضِ شبیر کا انجام ہے دہشتگردی
دور ہوگا جو غمِ شاہ سے رسوا ہوگا
ظلم بڑھتا ہے تو بڑھنے دو عزاداروں پر
کربلا والوں کا غم اور زیادہ ہوگا
جسکی آمد سے ہی میداں میں ہے عالم ہو کا
جانے کیا ہوگا جب اُس شیر کا حملہ ہوگا
ہیں یقیں مجھکو کہ گستاخِ ابوطالب کا
شجرہ ہندہ کے نجس خون سے ملتا ہوگا
شبِ عاشور اندھیروں سے یہ حر کہکے چلا
درِ شبیر پہ قسمت کا سویرا ہوگا
اپنے ہاتھوں سے پلا دو اِسے پانی عباس
لبِ دریا بھی کئی روز کا پیاسہ ہوگا
جس میں شامل نہ ہو اخلاص کی دولت *عارف*
غمِ سرور نہیں وہ کھیل تماشہ ہوگا
سید محمد عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment