Thursday, 25 May 2017

سلام

کیوں مچا رکھا ہے تم نے یہ تماشہ خون کا؟
جس طرف دیکھو نظر آتا ہے دریا خون کا

خود کوشی بم کے دھماکے کیا یہی اسلام ہے
کیا سبق قران سے تم نے یہ سیکھا خون کا؟

کھا گئی تم کو جہالت چھن گیا علم و شعور
بس تمہارے لب پہ ہے ہر وقت چرچہ خون کا

پرچمِ توحید کو دہشت کا عنواں کر دیا
کر دیا اسلام کے چہرے کو چہرہ خون کا

ہو رہی ہے خون سے رنگیں یمن کی سرزمیں
شام و پاکستان میں طوفاں ہے برپا خون کا

امن و ایمان و محبت مقصدِ اسلام ہے
دیں سبق ہمکو نہیں ہرگز سکھاتا خون کا

جو بہاتے پھر رہے ہیں بے گناہوں کا لہو
آلِ بو سفیان سے ان کا ہے رشتہ خون کا

پاک ہو جاےگی دنیا ظالموں کے خون سے
آےگا جب میرا مولا لینے بدلہ خون کا

جان بھی شبیر کی یہ جسم بھی شبیر کا

شاہِ دیں پر ہے فدا ہر قطرہ قطرہ خون کا

کربلا میں آتے ہیں دو قسم کے پیاسے نظر
ایک پیاسہ آب کا اور ایک پیاسہ خون کا

کرکے اپنی پشت پہ زنجیر کا ماتم بپا
دیتے ہیں ہم فاطمہ زہرا کو پرسہ خون کا

سونے دیتا ہی نہیں عارف اسے شیعوں کا خوف
اس لئے دیتا ہے مفتی روز فتویٰ خون کا.

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...