حد سے بھی زیادہ کوئی عادت نہیں اچھی
ہو جس میں دکھاوا وہ عبادت نہیں اچھی
نفرت کی پرستار حکومت نہیں اچھی
بستی جو جلا دے وہ سیاست نہیں اچھی
بے وجہ رفیقوں کی ضرورت نہیں اچھی
ہو جس میں انا ایسی رفاقت نہیں اچھی
عزت سے کمائی گئی دولت میں ہے برکت
دولت سے خریدی گئی عزت نہیں اچھی
فاقوں پہ گزاری گئی غربت کے میں صدقے
بن جائے تماشہ جو، وہ غربت نہیں اچھی
گر امن کا حامی ہو تو پھر جھوٹ ہی اچھا
بھڑکائے جو فتنہ وہ صداقت نہیں اچھی
انجامِ محبت ہے فقط خونِ تمنا
بے لوث کسی سے بھی محبت نہیں اچھی
آ جائے اگر آنچ اصولوں پہ تمہارے
پھر بولنا لازم ہے شرافت نہیں اچھی
مجرم کو سزا دے تو عدالت ہے عدالت
ہو جرم کی حامی تو عدالت نہیں اچھی
اِس عہدِ جوانی میں بھی معشوق نہیں ہے
اب مان جا عارف تری صورت نہیں اچھی
سید محمد عسکری "عارف"
No comments:
Post a Comment