غزل
خانہ بدوش کی طرح سب گھر لئے ہوے
کوچہ بہ کوچہ پھرتا ہوں بستر لئے ہوے
ہمراہ اپنے، میرا کٹا سر لئے ہوے
وہ جا رہا ہے ساتھ میں لشکر لئے ہوے
میری مزاج پرسی کو آیا وہ اِسطرح
دامن میں سنگ ہاتھ میں خنجر لئے ہوے
ہستا ہوں میں بھی حلقہء یاراں میں ہاں، مگر
آنکھوں میں آنسووں کا سمندر لئے ہوے
پھرتا ہے کوئی شہر کی گلیوں میں دربہ در
اک بوجھ اپنے پیٹ کا سر پر لئے ہوے
یا رب بچا لے بارشِ غفلت سے، خیر کر
اِترا رہا ہوں خاک کا پیکر لئے ہوے
پرواز کا ہنر بھی سکھا دے کوئی مجھے
ورنہ کوئی مفاد نہیں پر لئے ہوے
"عارف" سنا ہے خوف سے لرزاں ہیں اہلِ شر
نکلا ہے کوئی فوجِ بہتّر لئے ہوے
سید محمد عسکری عارف
Comments
Post a Comment