غزل

خود اپنی آگہی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں
در اصل زندگی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

ہے دل میں ایک شورِ سکوتِ الم بپا
دنیائے خامشی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

تاریک کنجِ قلب کو روشن جو کر سکے
ایسی ہی روشنی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

ہر سمت دشمنی کے طلبگار ہیں یہاں
اِک شہرِ دوستی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

ہر روز و شب اداسیء غربت میں ہوں گھرا
شائد کسی خوشی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

نظروں میں دھول ہوتا ہے جینے کا حوصلہ
لگتا ہے موت ہی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

ہاں پھر سے میرا ہے نکلا وفاشکن
ہاں پھر سے عاشقی کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

عارف گداے دولتِ اشعار کے لئے
لفظوں کی نوکری کا پتہ ڈھونڈھتا ہوں میں.

Comments

Popular posts from this blog

مسدس مولا عباس

منقبت مولا علی علیہ السلام

منقبت رسول اللہ ص اور امام جعفر صادق علیہ السلام