تیر سے مشکِ سکینہ کا جو بکھرا پانی
اپنی قسمت پہ بہت پھوٹ کے رویا پانی
جنکی الفت میں ہے خالق نے بنایا پانی
ہائے افسوس نہ ان لوگوں نے پایا پانی
اپنے ہونٹو پہ نہ عباس نے رکھا پانی
مر گیا شیر کے چلّو میں ہی پیاسہ پانی
جاں بلب پیاس سے دم توڑ رہا تھا پانی
خود ہی عباس نے پانی کو پلایا پانی
دیکھکر جلتی زمیں پر علی اصغر کے قدم
گرم ریتی سے نہ کیوں پھوٹ کے نکلا پانی؟
بنتِ سرور کو تمانچوں کے سوا کچھ نہ ملا
مانگتی رہ گئی ہر آن وہ دکھیا پانی
شدّتِ پیاس سے بچّوں نے جو دم توڑ دیا
سنگ ریزوں نے بھی رو رو کے بہایا پانی
یہ تو مولا کی سخاوت کے تھے جوہر ورنہ
اہلِ باطل کو کہیں ڈھونڈھے نہ ملتا پانی
جانے کیسی وہ خطا تھی کہ ندامت سے بھرا
گرد عباس کے ہے آج بھی پھرتا پانی
امتحاں صبر و تحمّل کا تھا ورنہ عارف
اذنِ شبّیر پہ ہو جاتی یہ دنیا پانی.
No comments:
Post a Comment