غزل
درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد
ہم تو جلتے ہیں چراغوں کی طرح شام کے بعد
بس یہی سوچ کے اکثر میں لرز جاتا ہوں
جانے کیا ہوگا مِرا حشر کے ہنگام کے بعد
عشق کر بیٹھے مگر ہم نے یہ سوچا ہی نہیں
خاک ہو جائں گے ہم عشق کے انجام کے بعد
لکھ کے کاغز پہ ترا نام قلم توڑ دیا
کوئی بھایا ہی نہیں مجھکو ترے نام کے بعد
غم کے سیلاب میں پھر بہ گیا مسکن میرا
چین پایا ہی تھا اک بارشِ آلام کے بعد
مرے قاتل نے مری لاش پہ دم توڑ دیا
وہ پشیماں تھا مرے قتل کے الزام کے بعد
ہم نے سیکھا ہے ہنر فتح و ظفریابی کا
عزم اپنا ہے جواں، کوششِ ناکام کے بعد
سنگ ساری و ملامت ہوے اب اپنے نصیب
ہم تو برباد ہوے کوچہء اصنام کے بعد
کیا خزاں آئی کہ برباد ہوا سارا چمن؟
رہی گئ آہ و فغاں گلشنِ گلفام کے بعد
مثل "امرِت" مرے اشکوں کی صفت ہے "عارف"
اک نئی زیست عطا ہوتی ہے اس جام کے بعد
Comments
Post a Comment