نوحہ
پُرغم صدائے غیب فلک سے یہ آئی ہے
سجدے میں تیغ شیرِ الٰہی نے کھائی ہے
محوِ نمازِ صبح تھے مولائے کائنات
تلوار چھپ کے سر پہ لعیں نے لگائی ہے
دنیا میں چند روز کا میھمان ہے علی
شیعوں سے اب امام کا وقتِ جدائی ہے
حسنین رو رہے ہیں عماموں کو پھینک کر
مسجد میں ایک بدلی مصائب کی چھائی ہے
گہرا ہے زخم سر پہ ہیں کپڑے لہو میں تر
خوں میں امامتوں کی امامت نہائی ہے
مسجد میں رو رہے ہیں تڑپکر حسن حسین
لپٹا ہوا کلیجے سے بھائی کے بھائی ہے
تنویر جسکی پھیلی تھی سارے جہان میں
ظالم نے دیکھو آج وہ شمّع بجھائی ہے
کیسا ستم ہوا یہ شہ ذوالفقار پر
ہے سرخ آسماں تو زمیں تھرتھرائی ہے
اب کون ہوگا بیووں یتیموں کا مددگار
مسکین روکے کہتے ہیں یا رب دہائی ہے
چالیس دن بجھی تھی جو تلوار زہر میں
ضربت اُسی سے سر پہ علی کے لگائی ہے
*عارف* پچھاڑیں کھاتی تھیں حیدر کی بیٹیاں
بیٹوں نے جبکہ باپ کی میت اٹھائی ہے
سید محمد عسکری *عارف* اکبرپوری
No comments:
Post a Comment