باسمہ تعالٰی
*بقیع میں*
بہتا ہے حکمتوں کا سمندر بقیع میں
بنتا ہے کل جہاں کا مقدر بقیع میں
ہوگا قصاصِ آلِ پیمبر بقیع میں
آئے گا جب امام کا لشکر بقیع میں
سایہ نہیں ہے قبر پہ بنت رسول کی
ہے دینِ مصطفٰی کا کھلا سر بقیع میں
نوحہ کناں ہیں آیہء تطہیر و ھل اتی
روتا ہے اب بھی سورہء کوثر بقیع میں
جسکو کبھی نہ دیکھا ہو سورج نے بے ردا
سایہ نہیں اُسی کی لحد پر بقیع میں
پوتے علی کے اور نواسے رسول کے
غربت زدہ ہیں آلِ پیمبر بقیع میں
دیکھی ہے جب کہ بنتِ محمد کی بیکسی
روئے ہیں سنگ دل بھی تڑپ کر بقیع میں
آواز اب بھی آتی ہے صبت علی کی
ٹوٹی ہوئی لحد سے برابر بقیع میں
سید محمد عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment