تازہ غزل
قیدِ غفلت سے نکلنے میں بہت دیر لگی
تجھکو اے دوست سمجھنے میں بہت دیر لگی
بعد منزل پہ پہنچنے کے یہ معلوم ہوا
ٹھوکریں کھا کے سنبھلنے میں بہت دیر لگی
شب کو بارش بھی تماشائی ہوئی تھی شائد
میرے کاشانے کو جلنے میں بہت دیر لگی
زندگی موت میں اک معرکہ آرائی تھی
اسلئے جسم کو مرنے میں بہت دیر لگی
شب اندھیروں نے بہت رقص کیا ہوگا ضرور
صبح سورج کو نکلنے میں بہت دیر لگی
ظلم تھک ہار کے بیٹھا ہے نہ جانے کب سے
صبر کو حد سے گزرنے میں بہت دیر لگی
ایک مدت سے شکستہ تھا میں لیکن *عارف*
ٹوٹ کر مجھکو بکھرنے میں بہت دیر لگی
سید محمد عسکری *عارف*
بہت عمدہ اور معیاری شاعری خاص کر مذہبی گوشہ
ReplyDeleteشکریہ برادر آپکا نام جان سکتا ہوں
Delete