باسمہ تعالٰی
*شبیر کا ماتم*
مظلوم کی تلوار ہے شبیر کا ماتم
ہر ظلم پہ یلغار ہے شبیر کا ماتم
باطل سے یہ انکار ہے چودہ سو برس کا
حق بات کا اقرار ہے شبیر کا ماتم
مفتی ترے فتوں سے کبھی گر نہیں سکتی
اللہ کی سرکار ہے شبیر کا ماتم
مل جل کے غمِ شاہ مسلمانوں مناؤ
اسلام کا پرچار ہے شبیر کا ماتم
بھولے سے نہ تم اسکو کبھی رسم سمجھنا
اصلاح کا "سنسار" ہے شبیر کا ماتم
زنجیر میں جکڑا ہوا مختار ہے لیکن
کرتا سرِ دربار ہے شبیر کا ماتم
کیوں اسکو بناتا ہے تجارت کا ذریعہ
کیا ذکر کا بازار ہے شبیر کا ماتم؟
للہ اسے دیکھ نہ دولت کی نظر سے
کیا درہم و دینار ہے شبیر کا ماتم؟
جو ہاتھ نہیں اٹھتے ہیں تکبیر کی خاطر
ان ہاتھوں سے بے کار ہے شبیر کا ماتم
کیا سمجھیں گے وہ لوگ بھلا مقصدِ شبیر
جن کے لئے تیوہار ہے شبیر کا ماتم
ہے آلِ امیہ کا لہو جنکی رگوں میں
ان کے لئے دشوار ہے شبیر کا ماتم
پابندِ سلاسل ہے نہ پابندِ رسن ہے
مختار ہے مختار ہے شبیر کا ماتم
روکے گی کہاں تک غمِ شبیر کو دنیا
جب تک ہیں عزادار، ہے شبیر کا ماتم
تا حشر حق و ظلم کے مابین اے *عارف*
اک سرحدِ انکار ہے شبیر کا ماتم
ازقلم - سید محمد عسکری *عارف* اکبر پوری
بتاریخ- 12 ستمبر 2017
No comments:
Post a Comment