پیاس کے رخ پر وفاؤں کا طمانچہ رکھ دیا
مشک میں عباس نے لمحوں میں دریا رکھ دیا
کر نہیں سکتا اندھیرا اب یہاں کوئی یزید
شام کی قسمت میں زینب نے اجالا رکھ دیا
دشمنِ زہرا کو دنیا میں جلانے کے لئے
دین میں رب نے تولا اور تبرا رکھ دیا
حشر تک گونجا کرے اللہ اکبر اس لئے
*بڑھ کے اکبر نے اذانوں میں کلیجہ رکھ دیا*
کیا سمجھ پاؤگے تم اِن آنسوؤں کے مول کو
جنکے بدلے خلد میں خالق نے خانہ رکھ دیا
تاابد شبیر پر خالق نے رونے کے لئے
صورتِ اشکِ عزا آنکھوں میں دریا رکھ دیا
آ گئے پھر راہب و فطرس برائے مدعا
گھر میں جب ہم نے علی اصغر کا جھولا رکھ دیا
جب کسی نے ماتمِ شبیر کو بدعت کہا
سورہء یوسف کا پھر ہم نے حوالہ رکھ دیا
رکھ دیا جس نے غمِ شبیر کو بالائے طاق
نامہء اعمال میں اُس نے اندھیرا رکھ دیا
کسطرح لیکر گئے شہ لاشہء اکبر نہ پوچھ
خاک پر رکھا جنازہ پھر اٹھایا رکھ دیا
پھوٹ کر رونے لگی فوجِ ستم جب شاہ نے
گرم ریتی پر علی اصغر کو پیاسہ رکھ دیا
غربتِ شبیر پر گریہ کناں ہے ذوالفقار
قبر میں شبیر نے اصغر کا لاشہ رکھ دیا
میرے مالک نے شرف *عارف* مجھے کیسا دیا
خانہء دل میں مرے غم کربلا کا رکھ دیا
سید محمد عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment