تذکرہ ہوتا تھا جب بھی ظلم کی روداد کا
غم سے پھٹتا تھا کلیجہ سیدِ سجاد کا
اشکِ خوں روتی تھیں آنکھیں عابدِ بیمار کی
یاد آتا تھا جو منظر شام کی افتاد کا
خاک پہ گرتا تھا غش کھا کے مِرا چوتھا امام
پشت پر لگتا تھا جب دُرّا ستم ایجاد کا
کربلا میں گود اجڑی مانگ بھی سونی ہوئی
ہائے یہ اجڑا مقدر بانوئے ناشاد کا
*بے ردائی آلِ احمد کی یہ دیتی ہے صدا*
*سخت ہے شبیر سے بھی امتحاں سجاد کا*
خون کے آنسو بہاتے ہیں امامِ عصر بھی
جب نگاہوں میں ابھر آتا ہے غم اجداد کا
کربلا والوں نے اپنی گردنوں کی دھار سے
کاٹ ڈالا ہے گلا ہر خنجرِ بے داد کا
باپ کی فرقت میں روتی تھی سکینہ جب کبھی
رخ پہ لگتا تھا طمانچہ شمر سے جلاد کا
جب گئی سجاد کے مجروح پیروں پر نگاہ
خوف سے تھرّا گیا سارا بدن حدّاد کا
کوئی لکھ پایا نہ *عارف* عابدِ مضطر کا غم
موم ہوکر رہ گیا ہر اک جگر فولاد کا
سید محمد عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment