باسمہ سبحانہ تعالٰی
کہ اب بھی اُسکا کٹا ہوا سر سناں پہ قرآں سنا رہا ہے
اسی لئے تو یزیدیت کو حسین کا ڈر ستا رہا ہے
ہوں تین دن کا میں بھوکا پیاسہ، کہاں اسے یہ گلہ رہا ہے
بقائے وحدانیت کی خاطر وہ اپنی گردن کٹا رہا ہے
کہ اب بھی اسکی کٹی رگوں سے صدا وہ ھلمن کی آ رہی ہے
تمہیں خبر ہے حسین تمکو مدد کی خاطر بلا رہا ہے
کبھی ہے کڑیل جواں کی میت، کبھی ہے ششماہے کا جنازہ
کبھی بھتیجے کے ٹکڑے رن سے حسین خیمے میں لا رہا ہے
خیالِ تشنہ لبی کہاں ہے؟ جنوں سے چہرے چمک رہے ہیں
زباں میں کانٹے پڑے ہیں لیکن لبوں پہ شکرِ خدا رہا ہے
طمانچے رخ پر، گلے میں رسی، یتیم بچی پہ کیا ستم ہے
کفن کی صورت بدن پہ اُسکے بس ایک کُرتا جلا رہا ہے
سلام ہو بے شمار تجھ پر، اے کاروانِ حرم کے سردار
قیامتوں کے ہجوم میں بھی، جواں ترا حوصلہ رہا ہے
وہ دیکھ کڑیل جوان اکبر سناں سجائے ہوئے جگر پر
غرورِ بیعت کو اپنے پیروں تلے کچلتا ہی جا رہا ہے
کچھ اسطرح سے فرات پر وہ وفا کی حرمت بڑھا رہا ہے
خود اپنے ہاتھوں سے تشنگیء فرآت غازی مٹا رہا ہے
عطش کے صحرا میں اُسکی سوکھی زباں ہی شمشیر ہو گئی ہے
رُلا کے فوجِ ستم کو ننھا سپاہی اب مسکرا رہا ہے
عزائے سبطِ نبی بقا ہے، یہی تو جینے کا فلسفہ ہے
قسم خدا کی غمِ شہیداں حیات کا سلسلہ رہا ہے
نہ رُک سکا ہے نہ رُک سکے گا حسین کا غم سدا رہے گا
محافظِ ذکرِ شاہِ والہ ازل سے خود کبریا رہا ہے
گزرتے لمحوں کے ساتھ اِس پر شباب بڑھتا ہی جا رہا ہے
گزر گئیں چودہ صدیاں لیکن حسین کا غم نیا رہا ہے
رکا ہوا ہے نظامِ عالم، علی کا لہجہ گرج رہا ہے
یزید کی سلطنت ہے زد میں، یزید بھی تھرتھرا رہا ہے
ہماری خوشیاں ہیں کربلا سے ہمارے غم بھی ہیں کربلا سے
ازل سے طرزِ حیات *عارف* ہمارا صبر و وفا رہا ہے
عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment