گل کرکے شمعِ بزمِ شہادت شبِ دھم
اصحاب کے گماں کو یقیں سے مٹا دیا
تیغ و تبر، نہ خنجر و تیر و کمان سے
بیعت کو شہ نے اپنی نہیں سے مٹا دیا
چہرے کو مل کے پائے بنِ بوتراب پر
حر نے ندامتوں کو جبیں سے مٹا دیا
اٹھی تھی قصرِ شام سے بیعت کی تیرگی
بنتِ علی نے اُسکو وہیں سے مٹا دیا
اٹھّے نہ جانے کتنے خلافِ غمِ حسین
سب کا وجود حق نے زمیں سے مٹا دیا
No comments:
Post a Comment