Friday, 27 October 2017

چہلم منانے آئی ہے زینب حسین کا

نوحہ چہلم شہدائے کربلا

برپا ہے ایک حشر سرِ دشتِ کربلا
چہلم منانے آئی ہے زینب حسین کا

روتی ہے پھوٹ پھوٹ کے زینب جگر فگار
بھائی بغیر کیسے وطن جائے سوگوار
پڑھتی ہے قبرِ سبطِ پیمبر پہ مرثیہ

اکبر کو روئے گی علی اصغر کو روئے گی
بتیس سال والے برادر کو روئے گی
جی بھر کے آج روئے گی پیاسوں کو غمزدہ

فروا پچھاڑیں کھاتی ہے قاسم کی قبر پر
کہتی ہے سر کو پیٹ کے مادر بہ چشمِ تر
قاسم اٹھو مدینے کو جاتا ہے قافلہ

اے مومنو فرات پہ منظر عجیب ہے
عباسِ باوفا کا یہ کیسا نصیب ہے
چھوٹی سی قبر میں ہے علمدارِ باوفا

غازی کی قبر دیکھ کے لرزاں ہیں سب حرم
آنسو رواں ہیں آنکھوں سے ہر اک کی دم بدم
غش کھا کے گر رہے ہیں اسیرانِ کربلا

جنگل میں چھوڑے جاتی ہے ننھی سی ایک جاں
امِّ رباب کہتی ہے لے لے کے سسکیاں
آئے گی یاد تیری بہت گھر میں مہلقہ

لیلی تو دل پہ داغِ جواں لے کے جائے گی
صدمہ جوان لال کا کیسے اٹھائے گی
پردیس میں بچھڑ گیا ہمشکلِ مصطفٰی

بچوں کی قبر دیکھ کے زینب یہ کہ پڑی
بچوں معاف کرنا میں تمکو نہ روؤں گی
بھیا کو اپنے روؤں گی میں غم کی مبتلا

کرب و بلا میں فاطمہ زہرا کے چین کا
چہلم بپا ہے آج امامِ حسین کا
ہے سرخ آسماں تو لرزتی ہے کربلا

کچھ یوں کیا شہیدوں کے چہلم کا اہتمام
اہلحرم نے پیش کئے آنسوؤں کے جام
جی بھر کے رویا تین شب و روز قافلہ

کیونکر بیاں ہو مجھ سے قیامت کا وہ سماں
*عارف* جگر میں تاب نہیں، فکر ہے دھواں
زینب کے دل سے پوچھئے وہ غم کا واقعہ

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...