نوحہ
قید خانے میں سکینہ کا تھا نوحہ بابا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو
شام ہوتے ہی اندھیروں سے میں گھبراتی ہوں
سن کے آواز پرندوں کی بھی ڈر جاتی ہوں
اپنے سر کو در و دیوار سے ٹکراتی ہوں
کچھ بھی دِکھتا نہیں اتنا ہے اندھیرا بابا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو
ایک دو بار نہیں سیکڑوں مارے بابا
میرے رخسار پہ ظالم نے طمانچے بابا
چھوڑ کر جب سے سکینہ کو سدھارے، بابا
بن گیا گھڑکیاں کھانا ہی مقدر میرا
نیلے رخسار ہیں، کانوں سے لہو جاری ہے
قیدِ تاریک ہے، افتاد ہے، دشواری ہے
ایسا لگتا ہے کہ اب موت کی تیاری ہے
شدّتِ تشنہ لبی سے ہے برا حال مِرا
اب بھی رسی کی عزیت سے گلا دُکھتا ہے
سانس بھی لے نہیں پاتی مِرا دم گُھٹتا ہے
پیاس سے آنکھوں میں رہ رہ کے دھواں اٹھتا ہے
بھوک اور پیاس کی شدت سے بدن ٹوٹ گیا
اشک پیتی ہوں شب و روز، تو غم کھاتی ہوں
جب بھی اٹھتی ہوں نقاہت سے میں گِر جاتی ہوں
اُس پہ روتی ہوں تو درّوں سے سزا پاتی ہوں
کاش زنداں میں ہی آ جائے سکینہ کو قضا
یاد آتا ہے بہت آپکا سینہ بابا
کتنے دن ہو گئے سوئی نہ سکینہ بابا
ہائے دشوار ہوا اب مِرا جینا بابا
ایسی تقدیر کسی کی بھی بنائے نہ خدا
آنکھ لگتی ہے تو سونے نہیں دیتے ظالم
کُھل کے معصومہ کو رونے نہیں دیتے ظالم
مطمئن قید میں ہونے نہیں دیتے ظالم
ظلم پر ظلم کئے جاتے ہیں مجھ پر اعدا
زندگی رہ گئی بس آہ و بکا اور فریاد
ہو نہ پاؤں گی کبھی قید سے اب میں آزاد
کمسنی میں ہی ہُوا ہے مِرا بچپن برباد
ہائے اِس چار برس میں ہوں ضعیفہ بابا
غم سے پھٹتا ہے کلیجہ، تو لرزتا ہے قلم
کسیے *عارف* میں لکھو دخترِ شبیر کا غم
ہو نہیں سکتے مصائب کبھی بیبی کے رقم
شام سے آتی ہے کانوں میں یہ رہ رہ کے صدا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو
عسکری *عارف* اکبر پوری
No comments:
Post a Comment