غزل
کوئی ہمدم نہ کوئی یار نہ شیدائی ہے
حوصلہ دینے کو باقی مری تنہائی ہے
اِن دنوں گھر سے نکلتے ہوئے گھبراتا ہوں
ملک میں میرے تنفر کی گھٹا چھائی ہے
وہ سرِ عام مجھے جھوٹا بتاتا ہے مگر
ہے خبر اسکو مری بات میں سچائی ہے
نوکِ نیزہ کی بلندی بھی گوارہ ہے مجھے
سر جھکا لینے میں شامل مری رسوائی ہے
ایک مدت میں رہا جھوٹوں میں مکاروں میں
تب کہیں جاکے سیاست کی کلا آئی ہے
کیا کبھی چومے گا یہ آسماں قدموں کو مِرے
یا کہ لکھی مری تقدیر میں پسپائی ہے
جینا مشکل ہوا اس دور میں انساں کے لئے
جس طرف دیکھو وہاں معرکہ آرائی ہے
زندگی ایسا ہے اسٹیج کہ جس پر *عارف*
آدمی خود ہی تماشہ ہے، تماشائی ہے
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment