تازہ غزل آدمی
دنیا و مال و زر کا پرستار آدمی
رہتا ہے مشکلوں میں گرفتار آدمی
جسکو بھی دیکھئے ہے وہ مکار آدمی
کیا مٹ چکے ہیں صاحبِ کردار آدمی
ہوتی نہیں ہے جسکو میسر غزائے روح
ہوتا ہے اصل میں وہی بیمار آدمی
باقی کسی میں ضبط کی قوت نہیں رہی
کھینچے ہے بات بات پہ تلوار آدمی
کرتا ہے جھوٹ بات بڑے شوق سے مگر
سچ بولنے سے کرتا ہے انکار آدمی
حاکم بہت سے ملک میں میرے ہوئے مگر
کوئی ہوا نہ تم سا کلاکار آدمی
یوں تو ہمارا حلقہء احباب تھا وسیع
پھر کیوں مدد کو آئے فقط چار آدمی
مجرم قرار پائی عدالت غریب کو
عزت سے پھر بری ہوا زردار آدمی
پھیلاؤ ہاتھ صرف خدا کے حضور میں
بننا ہے گر زمانے میں خدار آدمی
ادنی سا ہے یہ اپنا تعارف اے *عسکری*
میں اک حقیر عبد، گنہگار آدمی
عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment