گماں کا تیر کمانِ یقیں سے نکلا ہے
پھر ایک سانپ مِری آستیں سے نکلا ہے
زمانہ سمجھا تھا مجھکو زمینِ شور مگر
ہرا درخت مِری سر زمیں سے نکلا ہے
غبارِ بیعتِ فاسق جہاں سے اٹھا تھا
یزیدیت کا جنازہ وہیں سے نکلا ہے
ہوا جو گرمیء احساس کا اثر دل پر
ندامتوں کا پسینہ جبیں سے نکلا ہے
ہوا ہے جب سے ہمارا شمار سچوں میں
ہماری ہاں کا بھی مطلب نہیں سے نکلا ہے
سمجھ نہ ریت کے صحرا کو ریگزارِ عطش
ہزار بار سمندر یہیں سے نکلا ہے
No comments:
Post a Comment