کٹھن راستوں سے گزر دھیرے دھیرے
مٹا دل سے صحرا کا ڈر دھیرے دھیرے
رہِ خار پر چھوڑ کر مجھکو تنہا
چلے سب مرے ہمسفر دھیرے دھیرے
ہر اک سانس ہے اک قدم سوئے منزل
کٹے زیست کا یوں سفر دھیرے دھیرے
ہمیں ٹھوکروں نے سبق یہ دیا ہے
چلیں سوئے منزل مگر دھیرے دھیرے
خدا جانے کس کے خیالوں میں اپنے
گزرتے ہیں شام و سحر دھیرے دھیرے
بدن سارا تیروں میں الجھا تھا لیکن
گیا اسکا سجدے میں سر دھیرے دھیرے
شرابِ جنوں کا اثر کیا بلا ہے
جلائے جو قلب و جگر دھیرے
یہ آغازِ رسمِ محبت ہے *عارف*
ملاؤ نظر سے نظر دھیرے دھیرے
No comments:
Post a Comment