باسمہ سبحانہ
کیا بتاےگا کوئی کیا مرتبہ زینب کا ہے
ساری دنیا ہے خدا کی اور خدا زینب کا ہے
ڈوبتی ایمان کی کشتی کو بعدِ کربلا
ریت کے دریا میں بس اک آسرا زینب کا ہے
بعدِ قتلِ شاہ دشتِ کربلا سے شام تک
منزلیں شبیر کی ہیں راستہ زینب کا ہے
رک نہیں سکتا سرِ عباس نیزے پر کبھی
باوفا بھائی کے آگے سر کھلا زینب کا ہے
آ نہیں سکتا کبھی صبحِ شریعت کو زوال
شام کی ظلمت میں روشن اک دیا زینب کا ہے
ٹل نہیں سکتی دعا ہرگز درِ عباس پر
ہاں اگر ہونٹوں پہ تیرے واسطہ زینب کا ہے
لہجہء شیرِ خدا کی تیغ کے جوہر بھی دیکھ
دشمنِ دینِ خدا سے سامنا زینب کا ہے
اللہ اللہ عظمتِ بنتِ علی، بعدِ حسین
مرضیء سجاد پر بھی فیصلہ زینب کا ہے
دوش پر کوہِ الم ہونٹو پہ شکرِ کبریا
عشق کی معراج ہے یا حوصلہ زینب کا ہے
تختِ شاہی منقلب ہونے میں کچھ ہی دیر ہے
گامزن قصرِ ستم کو قافلہ زینب کا ہے
دل میں اک دیرینہ خواہش ہے خدایا کر قبول
دید میں عارف کی روضہ سیدہ زینب کا ہے
سید محمد عسکری عارف
No comments:
Post a Comment