تازہ غزل
درد ہونٹوں کے تبسم سے عیاں تک نہ ہوا
جل گیا خانہء احساس دھواں تک نہ ہوا
سازشیں رچتے رہے قتل کی میرے مرے دوست
ہائے افسوس مجھے اُن پہ گماں تک نہ ہوا
کر گیا مجھکو یوں گمنام نشہ شہرت کا
بعد مرنے کے مرا نام و نشاں تک نہ ہوا
اسکو آداب محبت کے کوئی سکھلا دے
مرا محبوب مرا دشمنِ جاں تک نہ ہوا
زندگی نے تو کئے لاکھ ستم مجھ پہ مگر
ایک آنسو مری آنکھوں سے رواں تک نہ ہوا
خود کی دو گز کی زمیں اسکو میسر نہ ہوئی
مر گیا خانہ بدوش اپنا مکاں تک نہ ہوا
تری الفت تو بس اک حد میں ہی محدود رہی
تری خاطر یہ مرا عشق کہاں تک نہ ہوا
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment