حضرت جون ایلیا کی نذر
سوچتا ہوں میں اطمنان میں کیا
خود غرض سب ہیں اِس جہان میں کیا
تیرے ہونٹوں کا زہر پینے سے
جان آئے گی میری جان میں کیا
ایک شیشی بھی زہر کی نہ ملی
کچھ بھی رکھتے نہیں دکان میں کیا
بام و دیوار و در ہیں گرنے کو
کوئی رہتا نہیں مکان میں کیا
چند قدموں میں تھک گئے تم تو
کانٹے پڑنے لگے زبان میں کیا
یہاں پھولوں کا کچھ وجود نہیں
صرف کانٹے ہیں گلستان میں کیا
مثل ِ دیوار دو دلوں کے لئے
میں بھی حائل ہوں درمیان میں کیا
حال اپنا بھی ہے فقیروں سا
کچھ کمی ہے ہماری شان میں کیا
پاؤں رکھتے نہیں زمین پہ کیوں
تم بھی رہتے ہو آسمان میں کیا
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment