سلام سفرِ عشق
کلام عسکری عارف
عصمت کے آسماں کے ستارے سفر میں ہیں
ایماں کی رہگزر پہ اجالے سفر میں ہیں
اے آفتاب اپنی تمازت کو ضبط کر
بنت نبی کی گود کے پالے سفر میں ہیں
قرآن بھی نکل پڑے جزدان چھوڑ کر
آیات ہیں سفر میں سپارے سفر میں ہیں
مہندی بیاہ نیگ دلہن سرخ پیرہن
صغری کی حسرتوں کے جنازے سفر میں ہیں
خواہر کی یاد میں ہے برادر کی آنکھ نم
اشکِ غمِ فراق کے دھارے سفر میں ہیں
ہیں پُر سکون، سوچ کے یہ بیبیاں تمام
ہمراہ اپنے سارے سہارے سفر میں ہیں
کس شان سے چلی ہیں نبی کی نواسیاں
اٹھارا بھائیوں کے حوالے سفر میں ہیں
اک دوسرے سفر کی بھی تصویر دیکھئے
چوتھے امام طوق سنبھالے سفر میں ہیں
یثرب سے کربلا کوئی پیدل نہیں چلا
واپس ہوئے تو پاؤں کے چھالے سفر میں ہیں
عارف نہ تھم سکے گا کبھی عشق کا سفر
اب بھی سناں پہ حق کے جیالے سفر میں ہیں
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment