غزل
کیوں یہ کہتے ہو کہ ایسا نہیں ہونے والا
آدمی چاہے تو پھر کیا نہیں ہونے والا
خواہشیں ہوتی ہیں انسان کی فطرت میں نہاں
کوئی انسان فرشتہ نہیں ہونے والا
منصب و تخت و زر و لعل و گہر اپنی جگہ
مجھ سے احساس کا سودا نہیں ہونے والا
ایک ہی بار میں جاں ہار چکا لٹ بھی چکا
اب مجھے عشق دوبارا نہیں ہونے والا
یوں تو ہوتا ہے ہے ہر اک مرض کا نسخہ لیکن
عشق کا روگ تو اچھا نہیں ہونے والا
لاکھ روشن ہوں دیے یا کوئی سورج نکلے
شہرِ ظلمت میں اجالا نہیں ہونے والا
سر مرا کاٹ کے نیزے پہ چڑھا دے ظالم
مجھ سے بیعت کا ارادہ نہیں ہونے والا
زیرِ خنجر جو کرے شکر کا سجدہ عارف
آدمی اب کوئی ایسا نہیں ہونے والا
عسکری *عارف*
No comments:
Post a Comment