تازہ غزل
عشق کرنے کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے
اک بھلا آدمی بدنام بھی ہو سکتا ہے
چھین لیتا ہے سکوں عشق دوا ایسی ہے
زہر بن جائے تو آرام بھی ہو سکتا ہے
عشق چھپ چھپ کے کیا جائے یہی بہتر ہے
کھل گیا راز تو کہرام بھی ہو سکتا ہے
یوں تو لاکھوں ہیں خریدار مگر تیرے لئے
دل مرا یوں ہی ترے نام بھی ہو سکتا ہے
جس پہ تجھ کو ہے یقیں خود سے زیادہ مرے دوست
وہ سگِ بستیء اوہام بھی ہو سکتا ہے
بے سبب ملتا ہے اب کون کسی سے عارف
تجھ سے اسکو تو کوئی کام بھی ہو سکتا ہے
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment