نوحہ
بین کرتے تھے رو رو یہ مولا
ہائے قاسم مرے ہائے قاسم
گھوڑے دوڑائے تیرے بدن پر
ٹکڑے ٹکڑے ہوا ابن شبر
ہو گیا تیرا پامال لاشہ
ہائے قاسم مرے ہائے قاسم
رو رو.......
ہائے قاسم مرے ہائے قاسم..
جسم ٹکڑوں میں سارا بٹا ہے
پارا پارا گلِ مجتبٰی ہے
مر گیا ہائے میرا بھتیجا
ہاتھ پاؤں کہیں اور کہیں سر
جسم بکھرا پڑا ہے زمیں پر
کسطرح میں کروں تجھکو یکجا
ایک چادر میں ٹکڑوں کو رکھکر
سوئے خیمہ چلے روتے سرور
پھٹ رہا تھا مصائب سے سینہ
جب کہ خیمے میں پہنچے ہیں مولا
ہو گیا شور وا قاسمہ کا
بیبیاں روکے پڑھتی تھیں نوحہ
ماں یہ کہتی تھی قاسم کی روکر
کیسا پھوٹا یہ میرا مقدر
چھٹ گیا مجھ سے میرا دلارا
کتنی بے رحم تھی فوجِ اعدا
حال قاسم کا کیسا بنایا
کر دیا ٹکڑے ٹکڑے سراپا
چھا گئی زندگی میں سیاہی
ہو گئی بیوہ اک شب کی بیاہی
گھر میں آیا ہے دولہے کا لاشہ
دل لرزتا ہے، پھٹتا ہے سینہ
ہو رقم کیسے *عارف* یہ نوحہ
اک قیامت حرم میں تھی برپا
ہائے قاسم مرے ہائے قاسم
رو رو.......
ہائے قاسم مرے ہائے....
*عسکری عارف*
No comments:
Post a Comment