لاشِ غازی پر یہی رو روکے مولا نے کہا
مر گیا عباس ہائے، جھک گئی میری کمر
ہو گیا مجھ سے جدا بھائی مرا، ہمدم مرا
عمر بھر جس نے مجھے آقا کہا بھائی نہیں
ہائے دنیا میں وہی اب میرا شیدائی نہیں
رہ گیا شبیر تنہا بر سرِ کرب و بلا
کیا کروں کسکو بلاؤں میں کسے آواز دوں
کون ہے ہمدرد صحرا میں جسے آواز دوں
سب مرے انصار سوتے ہیں سرِ دشتِ بلا
سو نہیں پائے گی اب راتوں کو آلِ مصطفٰی
چین سے سوئیں گے لیکن دشمنانِ مصطفٰی
گھر بھی جل جائے گا جنگل میں رسول اللہ کا
مشک میں پانی بھرا، اور جانبِ خیمہ چلا
ہو گئے شانے قلم، گھوڑے سے منہ کے بل گرا
ہائے یہ کیسا ستم تجھ پر لعینوں نے کیا
پھٹ رہا ہے دل مرا غم سے کلیجہ چاک ہے
بعد اے بھائی ترے یہ زندگی بھی خاک ہے
دل میں اب شبیر کے جینے کا ارماں نہ رہا
جنگ کا ارمان سینے میں ہی گھٹ کر رہ گیا
کربلا میں بھی نہ اذنِ جنگ تجھکو دے سکا
دل پھٹا جاتا ہے بس یہ سوچکے واحسرتا
پیاس کی شدت میں بھی کتنا وفا کا پاس تھا
ہاتھ میں پانی لیا لیکن نہ ہونٹوں پر رکھا
مر گیا پیاسہ ہی ہائے ثانیء شیرِ خدا
تھم گیا اک سانس میں بتیس سالوں کا سفر
چل بسا غازی مجھے روتا بلکتا چھوڑ کر
ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے چُھٹ گیا سایہ مرا
کسطرح شہ نے سہا عباس سے بھائی کا غم
لے گئے خیمے میں کیسے شاہِ دیں خالی علم
ہو نہیں سکتا کبھی *عارف* رقم یہ ماجرا
No comments:
Post a Comment