پرانی غزل
عزابِ حُسن تہِ دید میں نہاں کرکے
میں جل بجھا کوئی بستی دھواں دھواں کرکے
گرِا انا کی بلندی سے جب تو یاد آیا
میں جی رہا تھا زمینوں کو آسماں کرکے
ترے وجود کا کوئی پتہ نہیں ملتا
تلاش ہم تجھے آے کہاں کہاں کرکے
گِرا ہوں کتنی دفعہ بامِ سرفرازی سے
اٹھا ہوں پھر بھی ارادے جواں جواں کرکے
چلا تھا میں تو اکیلا ہی سوئے دشتِ بلا
سفر تمام کیا خود کو کارواں کرکے
ملا جو کوئی بھی اپنا پرائی بستی میں
تو ہم بھی رو پڑے رودادِ غم بیاں کرکے
سںنبھل سنبھل کے چلو راہِ خار پر عارف
کسی نے پھینکا ہے پھولوں کو بیڑیاں کرکے.
محمد عسکری عارف------
No comments:
Post a Comment