باسمہ سبحانہ
ایک پرانا کلام
جو بھی سرور کے عزادار سے ٹکراتے ہیں
سر کو فولاد کی دیوار سے ٹکراتے ہیں
دفن ہو جاتے ہیں تاریخ کی تاریکی میں
وہ جو شبیر ع کے انکار سے ٹکراتے ہیں
ہم نے تاریخ میں کچھ ایسے بھی حاکم دیکھے
اپنے ایواں میں جو بیمار سے ٹکراتے ہیں
ہیبتِ حضرتِ عباس ع لبِ نہرِ فرات
اہلِ کیں شام کی دیوار سے ٹکراتے ہیں
سہ شب و روز کے پیاسے علی اصغر ع دیکھو
دشت میں تیرِ گراں بار سے ٹکراتے ہیں
دین و قرآں کی حفاظت کے لئے اہلِ حرم
سر برہنہ بھرے بازار سے ٹکراتے ہیں
ماند پڑ جاتی ہیں سورج کی شعائیں "عارف"
سنگ، جب حلقہء انوار سے ٹکراتے ہیں
سید محمد عسکری "عارف"
No comments:
Post a Comment