نوحہ
زندان میں شبیر کی دختر کا جنازہ
سجاد کے ہاتھوں پہ ہے خواہر کا جنازہ
زنجیر سنبھالے ہوے بیمار اٹھا ہے
ہے پیروں میں لرزش تو بدن کانپ رہا ہے
دفنانا ہے مظلومہء سرور کا جنازہ.
زینب سے چھٹی قید میں بھیا کی امانت
ہر غم میں جو ہمدم تھی وہی ہو گئ رخصت
روتی ہے پھوپھی دیکھکے مضطر کا جنازہ.
ہیں رخ پہ طمانچو کے نشاں پشت ہے زخمی
اک ننہی سی میت ہے جلے کرتے میں لپٹی
غربت میں گرفتاں ہے گلِ تر کا جنازہ
زندانِ ستم میں یہ قیامت کا سماں ہے
ہر قیدی کے ہونٹوں فقط آہ و فغاں ہے
اٹھتا ہے سکونِ دلِ سرور کا جنازہ
بابا سے چلی ملنے کو بابا کی دلاری
اشکوں کی لڑی آنکھوں سے عابد کے ہے جاری
ہے سامنے معصومہء بے پر کا جنازہ
جب شمر نے معصومہ کو مارے ہیں طمانچے
اور چھینے ہیں کانوں سے دلفگار کے بندے
تھرّا گیا عباسِ دلاور کا جنازہ
ہے ماں کی نظر میں ابھی بےشیر کی میت
اب چھینی خدا نے دلِ مجروح کی راحت
اجڑی ہوئی بانو کے مقدر کا جنازہ
دل سوچ کے ہر وقت لہو روتا ہے عارف
سینے میں کلیجہ بھی دھواں ہوتا ہے عارف
اٹھا ہی نہیں رن سے بہتّر کا جنازہ.
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment