نوحہ
کرب و بلا میں کیسی ستم کی ہے انتہا
تیرِ ستم سے چھیدا گلا شیر خوار کا
پانی کا جب کہ اہل جفا سے کیا سوال
آیا ہے پھر جوابِ ستم تیر تین بھال
ہاتھوں پہ اپنے باپ کے بچہ الٹ گیا
چلو میں بھر کے خون شہِ مشرقین نے
رخ کرکے پھر زمین کی جانب حسین نے
بولے قبول کر تو اِسے ارضِ کربلا
آئی صدا زمین سے اے ابنِ فاطمہ
آیا جو ایک قطرہ بھی مجھ تک تو باخدا
تاحشر ایک دانہ نہ روئیدہ ہوئے گا
پھر سوچا شہ نے پھینکے لہو جانبِ فلک
آئی صدا فلک سے جو خوں آیا مجھ تلک
بروسں گا تاابد نہ میں اک قطرہ آب کا
راضی ہوئے نہ خون پہ جب آسماں زمیں
چہرے پہ مل کے خون کو پھر بولے شاہِ دیں
خالق قبول کریو یہ سدقہ حسین کا
دامن میں لیکے لاشِ پسر پھر فلک جناب
پہنچے ہیں جب قریبِ درِ خیمہء رباب
سر کو جھکائے روتے تھے سلطانِ کربلا
خیمے کے در سے بانو کو آواز شہ نے دی
بانو سے پہلے بالی سکینہ نکل پڑی
بولی کہ پانی کیا مرے بھیا کو مل گیا
دامن عبا کا شاہ نے جس دم الٹ دیا
اک چیخ ماری اور یہ بانو نے دی صدا
پانی کے بدلے نہر ہوا میرا لاڈلا
ہاتھوں سے اپنے دشت میں عالی مقام نے
چھوٹی سی ایک قبر بنائی امام نے
آنکھوں سے بہتی جاتی تھی اشکوں کی علقمہ
اصغر کو دفن کر چکے جب شاہِ بحر و بر
پانی نہ تھا چھڑکتے جو مولا مزار پر
روئے لپٹ کے قبر سے پھر شاہِ کربلا
*عارف* قلم کو روک لے پھٹنے لگا جگر
*عمران* رو رہے ہیں عزادار پھوٹ کر
آگے نہ ہو سکے گا بیاں شہ کا مرثیہ
*عسکری عارف*
No comments:
Post a Comment