جگر پہ کھائے ہوئے ظلم کی سناں رن میں
جوان لال رگڑتا ہے ایڑیاں رن میں
لگا جو سینہء اکبر پہ ظلم کا نیزہ
شِکستہ ہو گئیں اکبر کی پسلیاں رن میں
زمیں پہ گرتے ہیں کھا کھا کے ٹھوکریں شبیر
دکھائی دیتی ہے دنیا دھواں دھواں رن میں
ضعیف باپ کو کچھ سوجھتا نہیں اکبر
بتا دو مجھ کو تڑپتے ہو تم کہاں رن میں
نکالے کیسے کلیجے سے نوجواں کے سناں
بہت ہی سخت ہے مولا پہ امتحاں رن میں
بتا دے فاطمہ صغرا کو کوئی یثرب میں
اجل کی آتی ہیں اکبر کو ہچکیاں رن میں
رخ اپنا پھیر لو اکبر کی سمت سے مولا
نکلنے والی ہے کڑیل جواں کی جاں رن میں
شبیہ احمد مرسل کو آ رہی ہے قضا
خزاں کی زد میں ہے لیلی کا گلستاں رن میں
جوان لعل کی میت اُٹھائے کیسے حسین
کمر جھکی ہے نظر ہے دھواں دھواں رن میں
قلم کو روک لے *عارف* تمام کر نوحہ
لہو میں ڈوبا ہے شبیر کا جواں رن میں
No comments:
Post a Comment