لاشِ جواں پہ پڑھتے تھے شبیر مرثیہ
اکبر تمہاری لاش اٹھاؤں میں کس طرح
بینائی جا چکی ہے خمیدہ ہوئی کمر
اکبر تمہارے بعد ہے بے آسرا پدر
لاشے اُٹھا اُٹھا کے ہیں کپڑے لہو میں تر
اٹھّے گا کیسے مجھ سے جنازہ جوان کا
قاسم نہیں ہیں عون و محمد نہیں رہے
زانو پہ میرے باوفا عباس مر گئے
اک دوپہر میں مر گئے سب چھوٹے اور بڑے
تنہا ہے آج دشت میں فرزندِ فاطمہ
یوں تو تمہارے سینے سے نیزہ نکل گیا
نیزے کے ساتھ ہائے کلیجہ نکل گیا
ارمانِ قلبِ مادرِ لیلیٰ نکل گیا
غلطاں ہیں خاک و خون میں ہمشکلِ مصطفیٰ
تسکینِ دل کی کوئی نشانی نہ دے سکا
کچھ بھی سوائے تشنہ دہانی نہ دے سکا
وقتِ اخیر تمکو میں پانی نہ دے سکا
پیاسے شہید ہو گئے تم وا مصیبتا
پیری میں ہم تو چار قدم چل نہ پائیں گے
اکبر تمہاری لاش کو کیسے اٹھائیں گے
بچے مدد کو خیمہ سے جس وقت آئیں گے
پھر بوڑھا باپ بیٹے کی میت اُٹھائے گا
بیٹا ضعیف باپ نقاہت سے چور ہے
رن میں بلا کی دھوپ ہے خیمہ بھی دور ہے
خیمہ میں تیری لاش بھی جانا ضرور ہے
روتی ہیں میرے حال پہ اب دادی فاطمہ
ایثارِ ہم شبیہ پیمبر قبول کر
پروردگار فدیہء اکبر قبول کر
صدقہ یہ میرا داورِ محشر قبول کر
لاشِ پسر کرتے تھے شبیر ع. یہ دعا
چلتے تھے تھوڑی دور قدم ڈگمگاتے تھے
میت زمیں پہ رکھتے تھے اور بیٹھ جاتے تھے
اٹھتے تھے پھر جوان کا لاشہ اٹھاتے تھے
*عارف* تھکن سے چور تھے مظلومِ کربلا
No comments:
Post a Comment