اپنی آغوش میں لپٹائے ہوئے باپ کا سر
مر گئی شام کے زنداں میں سکینہ گھٹ کر
رات بھر روتی رہی باپ کے سر سے لپٹی
ایسا روئی کہ اُسے موت کی ہچکی آئی
ہو گئی غم سے رہا، قید سے لیکن نہ چھُٹی
ہو گئی نذرِ قضا چار برس کی بچی
بن گئی گھور اندھیروں کی غذا تشنہ جگر
قید خانے میں تلاطم تھا سکینہ نہ رہی
راحتِ جانِ شہنشاہِ مدینہ نہ رہی
ہائے شبیر کی معصوم یتیمہ نہ رہی
بیکس و لاغر و مغموم حزینہ نہ رہی
اپنے بابا سے چلی ملنے کو پیاری دختر
ہیں عیاں اب بھی طمانچوں کے نشاں گالوں پر
زخمی کانوں سے لہو جاری ہے اب تک رِس کر
پپڑیاں پیاس کی شدّت سے عیاں ہیں لب پر
پشت سے چپکا ہوا کرتا لہو میں ہے تر
غم زدہ مر گئی درّوں کی اذیت سہ کر
بے کس، مضطر و پابندِ محن ختم ہوئی
کُھل گئی رسی تو ایذائے رسن ختم ہوئی
تشنہ لب تشنہ جگر تشنہ دہن ختم ہوئی
ننہے پیروں سے قیامت کی تھکن ختم ہوئی
اب نہ روئے گی کبھی ظلم و ستم سے ڈر کر
دیکھ کر بھائی کا سر ثانیء زہرا نے کہا
چھٹ گئی مجھ سے امانت یہ تمہاری بھیا
جسکو ارمان زیادہ تھا وطن جانے کا
موت نے زندہ اُسے قید میں رہنے نہ دیا
کر گئی خلد کو دنیا سے سفر تشنہ جگر
غسل دینے کے لیے آئی ہے جب غسّالہ
پشت سے چپکا ہوا کرتا جو دیکھا تو کہا
ہائے اس چار برس بچی پہ کیا ظلم ہوا
غسل دوں کیسے کہ چپکا ہے بدن سے کُرتا
یوں بھی ڈھاتا ہے کوئی ظلم کسی بچی پر
ہتھکڑی ہاتھوں میں اور پاؤں میں دوہری بیڑی
طوق و زنجیر میں جکڑا ہوا سجاد اخی
دفن کس طرح بہن کو کرے بیکس بھائی
کانپتے ہاتھوں سے اک ننہی سی تربت کھودی
دیر تک روتے رہے قبر میں میت رکھ کر
پیٹ کے سینہ و سر بانو نے فریاد یہ کی
بعدِ اصغر نہ بچی بالی سکینہ والی
مجھ سے پردیس میں بچھڑی ہے تمہاری پیاری
ہائے افسوس کہ اب گود بھی میری اُجڑی
ایسے جینے سے تو مر جانا ہے میرا بہتر
لپٹے تربت سے سکینہ کی بہت روئے حرم
قابلِ ضبط نہ تھا دخترِ شبیر کا غم
شدّت گریہ سے سینے میں گھٹا جاتا تھا دم
کیسے *عارف* ہو رقم غم سے لرزتا ہے قلم
ذہن قابو میں نہیں، درد سے پھٹتا ہے جگر
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment