Thursday, 24 August 2023

مرثیہ چہلم کے عنوان سے

پہنچے رہائی پاکے جو کربل میں بے وطن
بے کس، یتیم، بے سر و سامان  و خستہ تن
تشنہ، غریب، لاغر و لاچار و پر محن 
قبرِ اخی جو دیکھی تو بے ساختہ بہن
خود کو اخی کی قبر پہ اُسدم گرا دیا
لپٹی ہوئی لحد سے یہ کرتی تھی مرثیہ

بھیا  تمہارے  بعد   مظالم  بڑے   ہوئے
سامان سارے لٹ گئے خیمے بھی جل گئے
کرب و بلا سے شام کو بے پردہ، سر کھلے
قیدی  بناکے  ہمکو  ستمگار  لے  چلے
محمل بغیر بیبیاں اونٹوں پہ تھیں سوار
غلطاں تھے خاک و خون میں پردے کے ذمہ دار

ہم  کو  اسیر  کر  کے  جفاکار  لے  چلے
لاشوں کے درمیاں سے ستمگار لے چلے
عابد  کو  درّے  مارتے  بد کار  لے چلے
دُشنام  کرتے ہمکو  بد  اطوار  لے چلے
کنبے کا میرے قافلہ سالار مر نہ جائے
ڈرتی تھی غم سے عابدِ بیمار مر نہ جائے

آئی ہے بھائی لُٹ کے یہ بہنا اٹھو اٹھو
اے میرے پیارے اے مرے بھیا اٹھو اٹھو
پھٹتا ہے غم سے میرا کلیجہ اٹھو اٹھو
آئے ہیں ہم غریب خدارا اٹھو اٹھو
زنداں سے ہم اسیر رہا ہوکے آئے ہیں
بیٹی کو تیری شام میں ہم کھوکے آئے ہیں

دیکھو تو بازوؤں پہ رسن کے نشاں ذرا
درّوں سے زخمی پشت دکھاؤں میں تم کو کیا؟
بے پردہ ہم پھراے گئے وا مصیبتا
وہ کون سا ستم ہے جو ہم پر نہیں ہوا
کرب و بلا سے کوفہ میں کوفہ سے شام میں
ظالم ہمیں پھراتے رہے خاص و عام میں

آنسو بہا بہا کے یہ بولی جگرفگار
بھیا تمہاری حالتِ غربت پہ میں نثار
دکھیا بہن کا حال بھی پوچھو تو ایک بار
کیا کیا نہ ظلم ڈھائے ہیں ہم پر  ستم شعار
بھیا تری بہن پہ قیامت گزر گئی
دربار میں یزید کے میں ننگے سر گئی

رہ رہ کے دل میں اٹھتی ہے ہر دم یہی چبھن
جلتی زمیں پہ لاش تمھاری تھی بے کفن
تکتی تھی حسرتوں سے بریدہ ترا بدن
آئی نہ مجھکو موت تڑپتی رہی بہن
جکڑے تھے رسّیوں سے مرے ہاتھ اس گھڑی
بےگور تھی زمین پہ میت تری پڑی

ہر حد ستم کی ننہی سی جاں پر گزر گئی
کرب و بلا سے شام وہ باچشمِ تر گئی
کھاکے طمانچے رخ پہ جہاں سے گزر گئی
بھیا سکینہؐ شام کے زنداں میں مر گئی
قیدِ ستم میں تیری یتیمہ کو چھوڑکے
سوئے وطن چلی ہوں سکینہؐ کو چھوڑ کے

روتی تھی یاد کرکے تمہیں جب وہ خستہ جاں
ہر بار اُسکی پشت پہ لگتی تھی سیلیاں
رو رو کے اُس یتیمہ کے بندھ جاتی ہچکیاں
دیکھے ہیں اُسکے گالوں پہ جب نیل کے نشاں
کیسے بتاؤں صدمے جو مجھ پہ گزر گئے 
کیونکر نہ ہم غریب سفر میں ہی مر گئے

روروکے بین کرتی رہی زینبِؐ حزیں
سنکر بہن کے بین لرزنے لگی زمیں
روئی تڑپ تڑپ کے وہ ہمشیرِ شاہِ دیںؑ
عارفؔ بیاں ہو کیسے کہ اب تابِ دل نہیں
ہلتی تھی کربلا کی زمیں شور و شین سے
زینبؐ لپٹ کے روئیں مزارِ حسینؑ سے

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...