Friday, 25 August 2023

مرثیہ درحال شہادت جناب سکینؑہ

زندان میں جب بالی سکینہؐ نے قضا کی
غل پڑ گیا سرورؑ کی یتیمہ نے قضا کی
آلام و مصائب کی امینہ نے قضا کی
شب ہائے مصائب کی شبینہ نے قضا کی
روتی رہی لپٹی ہوئی شبیرؐ کے سر سے
بے دم ہوئی اک رات میں گریہ کے اثر سے

لو  تھم  گئی  آواز  فغاں  قید  ستم میں
خاموش ہوئی سوکھی زباں قید ستم میں
اک پل کو نہ مل پائی اماں قید ستم میں
مقتول ہوئی ننہی سی جاں قید ستم میں
دم گُھٹ گیا معدومِ جفا ہو گئی مضطر
رو رو کے زمانے سے جدا ہو گئی مضطر

لپٹائے  ہوئے  باپ کا سر گود میں اپنی
یوں لگتا تھا سوتی ہے یدُ اللہ کی پوتی
یہ دیکھ کے دل تھام کے زینبؐ یہ پکاری
لگتا ہے سکینہؐ بھی زمانے سے سدھاری
ٹھنڈا ہے بدن، آنکھوں کی پتلی بھی پھری ہے
سجاؑد اٹھو ہم پہ مصیبت یہ بڑی ہے

جس  وقت  سُنے  زینبؐ  مغموم  کے نالے
سجاؑد  اٹھے  حلقہء  زنجیر  سنبھالے
آنکھوں سے نہ کچھ دکھتا تھا اندوہ کے مارے
تھراّتے  ہوئے  لاشہء  معصوم  پہ  آئے
تکتے تھے بصد یاس گلِ تر کا جنازہ
روتے تھے فقط دیکھ کے خواہر کا جنازہ

زینبؐ کے  لبوں پر تھی صدا اے مرے بھائی
لو ہم  سے ہوئی آج سکینہؐ کی جدائی
ہے ہے نہ ملی بچی کو زنداں سے رہائی
دم توڑ گئی رنج و مصائب کی ستائی
افسردہ ہے، رنجور ہے شرمندہ ہے زینبؐ
موت آئی سکینہؐ کو مگر زندہ ہے زینبؐ

تھے   محوِ   بکا   اہلحرم   ہائے  سکینہؐ
برداشت ہو  کیسے ترا غم ہائے سکینہؐ
کیا کیا نہ ہوئے تم پہ ستم ہائے سکینہؐ
پایا نہ سکوں کوئی بھی دم ہائے سکینہؐ
بابا  پہ  فدا  ہو   گئی  تعزیر  کی ماری
ہر غم سے جدا ہو گئی تقدیر کی ماری

فرماتی تھیں رو رو کے ربابِؐ دلِ افگار
حلقوم  پہ  اصغرؑ  کے  لگا  تیرِ ستمگار
کیا  کم تھا مرے واسطے داغِ شہ ابرارؑ
یہ سوچ کے  چلتی ہے مِرے قلب پہ تلوار
اب داغ سکینہؐ کا سہوں گی بھلا کیسے
بن بیٹی کے زندہ میں رہوں گی بھلا کیسے

زنداں میں تلاطم سے بپا ہو گیا محشر
اک دوسرے سے خوب حرم روئے لپٹ کر
جب دفن ہوئی حضرتِ شبیرؑ کی دُختر
عارفؔ ہو رقم کیسے قیامت کا وہ منظر
اک حشر سا برپا تھا سکینہؐ کی قضا سے
زندان کا در ہلتا تھا نالوں کی صدا سے


No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...