نوحہ تازہ کلام تاریخ کی مناسبت سے
تھے قبرِ پیمبر پہ سرور کے سخن نانا
اب تیرے نواسے سے چھٹتا ہے وطن نانا
کس طرح بھلا جاؤں میں چھوڑ کے یثرب کو
دل میں یہی اٹھتی ہے رہ رہ کے چبھن نانا
ہاں وعدہء طفلی بھی اب مجھکو نبھانا ہے
جاتا ہوں بسانے کو اس واسطے بن نانا
کاٹے گا لعیں میرا سر تشنہ دہن نانا
کچھ کام نہ آئے گا اماں کا جتن نانا
میت پہ میری گھوڑے دوڑائیں گے اہل شر
ہو جائے گا لمحوں میں پامال بدن نانا
جلتی ہوئی ریتی پر مری لاش پڑی ہوگی
ہوگا ترا شہزادہ بے گور و کفن نانا
پھر شامِ غریباں کو جل جائیں گے سب خیمے
لٹ جائے گا جنگل میں سب تیرا چمن نانا
سیدانویوں کے سر پر باقی نہ ردا ہوگی
بندھ جائے گی بہنوں کے شانوں میں رسن نانا
جب شام کو جائے گی پابند رسن زینب
کس طرح سے دیکھے گی بھائی کو بہن نانا
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment