Friday, 18 August 2023

بازار میں دیتی تھیں صدا زینب مضطر

بازار میں دیتی تھیں صدا زینب مضطر
غیور برادر مرے عباس  کہاں ہو

جس روز میں پردیس کو نکلی تھی وطن سے
اک پل کو جدا بھی نہ ہوئے بھائی بہن سے
اب باندھے گئے ہاتھ پسِ پشت رسن سے
پرواز نہ کر جائے کہیں روح بدن سے
بے پردہ ہے اغیار میں اولادِ پیمبر


بے مقنع و چادر ہیں حرم بلوے میں ہائے
بالوں سے ہر اک بیبی ہے چہرے کو چھپائے
خاموش ہے سجاد کھڑا سر کو جھکائے
اس حال میں پھوپھیوں سے نظر کیسے ملائے
مر جائے نہ غیرت سے کہیں عابد مضطر

تھا ناز  مجھے  ہے مِرا  عباس  برادر
ہے 
دیکھے گا بھلا کون مجھے آنکھ اٹھا کر
پردیس میں اجڑا یہ مِرا کیسا مقدر
تم قتل ہوئے لٹ گئی بھیا مری چادر
جاتی ہے رسن بستہ سوئے شام یہ خواہر

ہم  لوگ  تماشا  ہیں  تماشائی  ہے امت
پامال ہوئی جاتی ہے سادات کی حرمت
باقی نہ رہی دل میں مسلمانوں کے غیرت
اللہ رے یہ عترتِ اطہار کی غربت
بے پردہ ہے بازار میں ناموسِ پیمبر

ہر سمت  فقط  مجمعِ اغیار  ہے بھائی
دو چار قدم چلنا بھی دشوار ہے بھائی
پیدل ہیں حرم اور رہِ پُر خار ہے بھائی
زنجیر میں سجاد گرفتار ہے بھائی
دیکھا نہیں جاتا ہے قیامت کا یہ منظر

جن لوگوں سے پردے کا زمانے میں چلن تھا
بے پردہ کبھی جنکو کسی نے نہیں دیکھا
افسوس کہ لوٹا گیا اُن لوگوں کا پردہ
بے پردہ ہوا ہائے محمد کا گھرانا
اللہ رے سادات کا یہ اُجڑا مقدر

ہم نے جو سہے کوئی وہ غم نہیں سکتا
اُمّت کے لیے ایسے الم سہ نہیں سکتا
مر جائے گا، گھُٹ جائے گا دم، سہ نہیں سکتا
گھر والوں پہ یوں ظلم و ستم سہ نہیں سکتا
جو ڈھائے گیے ہم پہ مظالم اے برادر

کس طرح ہو مرقوم قیامت کا وہ منظر
بے پردہ تھیں بازار میں جب دختر حیدر
روتا تھا، بندھا گھوڑے کی گردن سے کوئی سر
عارف جو صدا دیتیں تھیں عباس کی خواہر
آجاؤ کہ اغیار میں زینب ہے کھلے سر
عسکری عارف

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...