Friday, 15 September 2023

مسدس/نوحہ در حال شہادت امام حسن علیہ السلام


جب  زہر  دیا ہے حسنِؑ سبز  قبا  کو
اک درد اُٹھا دل میں امامِؑ دو سرا کو
وہ درد کی شدّت کہ تڑپتے تھے دوا کو
قے ہوتی تھی رہ رہ کے شہ عقدہ کشا کو
احمؐد کے جگربند پہ یوں سم کا اثر تھا
ٹکڑوں میں جگر بنٹ گیا حیدرؑ کے پسر کا

وہ  زہر کی تاثیر  کہ پھٹتا  تھا کلیجہ
بڑھ جاتی تھی تکلیف جو کٹتا تھا کلیجہ
شعلوں کی طرح سینے میں جلتا تھا کلیجہ
تقسیم شدہ طشت میں گرتا تھا کلیجہ
ہوتی تھی چبھن سینہ میں اک تیر کی صورت
تھا زہرِ ہلاہل کسی شمشیر کی صورت

صد پارہ ہوئے قلب و جگر سینہ میں جس دم
آواز دی  گھر والوں کو مسموم ہوئے ہم
برپا کیا پھر زینبؐ و کلثومؐ نے ماتم
عباسؑ و حسینؑ آئے قریبِ شہ عالم
بہنوں سے کہا روؤ نہ اے زینب و کلثوم
ہے مرضیِ معبود ہمیں ہونا ہے مسموم

شبیرؑ سے  بولے  کہ  برادر  مرے پیارے
اب میرا بھرا گھر ہے تمہارے ہی سہارے
کچھ دیر میں اب ہم بھی زمانے سے سدھارے
تھے آنکھوں سے مولاؑ کی رواں اشکوں کے دھارے
تکلیف سے بے حال نظر آتے تھے مولاؑ
بہنوں کی فغاں دیکھ کے غم کھاتے تھے مولاؑ

پھر سینے سے قاسمؑ کو لگا کر کے کیا پیار
لب چومے کبھی، چوما گلا اور کبھی رخسار
ہر جُزو کو شبّرؑ نے دیا بوسہ کئی بار
شاید کہ نگاہوں میں تھا عاشور نمودار
پامال شدہ اپنا چمن دیکھ رہے تھے
شہزادے کا ٹکڑوں میں بدن دیکھ رہے تھے

تھرّاتے ہوئے درد کی شدّت میں بھری آہ
خاموش جو  لب ہائے امامت ہوئے ناگاہ 
فروا نے کہا پیٹ کے سر اے میرے اللہ
کیا چھوڑ چلے ہمکو اکیلا شہ ذی جاہ
رخصت ہوئے والی ہمیں بے آسرا کر کے
محروم ہوئے بچے بھی سایہ سے پدر کے

جب کر گیے دنیا سے سفر خلد کو مولا
ایک شور ہوا ہائے حسنؑ ہائے حسنؑ کا
لو اُٹھ گیا دنیا  سے  محمدؐ کا نواسہ
مقتول  ہوا  زہر  سے حیدؑر  کا  دلارا
اس غم میں نبیؐ چاک گریبان کیے ہیں
اور بالوں کو زہراؐ بھی پریشان کیے ہیں

جب گھری سے چلا سبط پیمبرؐ کا جنازہ
اور قبرِ  رسولِؐ عربی  کے قریں پہنچا
نرغہ کیے  اک مجمع کماں داروں کا آیا
ملعونہ یہ بولی کہ یہاں کی ہوں میں ملکہ
میں ہونے نہیں دوں گی یہاں دفن کسی کا
ہو اور کہیں دفن حسن ابن علیؑ کا

یہ دیکھ کے پیشانیِ غازیؑ پہ بل آئے
پسرانِ علیؑ تیغ بکف سب نکل آئے
نزدیک تھا  کہ خون کی ندّی اُبل آئے
سر کٹ گریں اور دشمنِ دیں کو اجل آئے
آثار مدینہ میں  قیامت کے عیاں تھے
تیار وغا کو بنی ھاشم کے جواں تھے

یہ دیکھ  کے  شبیرؑ پکارے مرے شیرو
یہ وقت لڑائی کا نہیں میرے دلیرو
سب بہر خدا میان میں شمشیروں کو رکھو
عباسؑ کرو ضبط ابھی غیظ و غضب کو
ہرگز نہیں منظور یہاں ہمکو وغا ہے
یہ شہر مدینہ بخدا امن کی جا ہے

یہ سننا تھا ہر اک نے رکھی میان میں شمشیر
ناگاہ جنازے پہ برسنے  لگے  پھر  تیر
کچھ حق کے خلیفہ کی نہ رکھی گئی توقیر
تھی خون میں ڈوبی ہوئی اسلام کی تصویر
ہر جا سے اُبلتے تھے فقط خون کے دھارے
یوں تیر جنازے پہ ستمگاروں نے مارے

پھر لے کے چلے گھر کی طرف زخمی جنازہ
رنجیدہ تھے مغموم تھے ناشاد تھے مولاؑ
ہر ایک جھکائے ہوئے سر محوِ بکا تھا
ہے ہے یہ نصیب اور محمدؐ کا  نواسہ
تابوتِ شہ جنّ و بشر لوٹ کے آیا
یہ پہلا جنازہ ہے جو گھر لوٹ کے آیا
عسکری عارف

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...